افسانہ: بے نام
یہ میرا پہلا اردو افسانہ ہے، اِس کا خیال مجھے تقریباَ دو سال پہلے دوران سفر آیا، اور چند منٹ میں ہی یہ پوری کی پوری کہانی، بمع قواعد و انشاء میرے ذہن میں آبیٹھی۔ بس پھر میں نے گھر پہنچ کر اسے ایسے ہے کاغذ پہ اتار لیا، البتہ بلاگ پہ ڈالنے میں کافی وقت لگ گیا، جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ کہانی مجھے شروع شروع میں تو بہت کلاسیکل لگی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے لیے جذبات کی قلت پڑ گئ، (معلوم نہیں لیکن شاید اکثر لکھیاریوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے)، خیر، میں نے کچھ دن پہلے اپنی پرانی ڈائری میں سے یہ نکالی، اور پھر خیال آیا کہ جیسی بھی ہے، پبلش کر دیتی ہوں، اور تھوڑی سی جد و جہد کر کے میں نے یہ قدام بھی اٹھا ہی لیا۔ امید کرتی ہوں کہ میری یہ کوشش رائیگاں نہیں گئ ہو گی
اس نے آنکھیں
کھولیں، کمرے میں ایک عجیب سا سکوت طاری تھا، روشنی کا واحد ذریعہ کھڑکی پہ لگے
ہلکے نیلے رنگ کے ریشمی پردوں سے چھن کر آنے والی سفید چاشنی نما روشنی تھی، وہ
بستر سے اٹھی اور کھڑکی کے پاس جا کر پردے کھسکا دیے، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کے ساتھ
لمبے بھورے بال پیچھے کو اڑے۔ وہ سنگھار میز کے سامنے سے اسٹول کھینچ کر کھڑکی کے
سامنے جا بیٹھی اور کہنیاں سِل پہ ٹکا دیں۔ ٹھنڈی ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے آ رہے
تھے، اس نے دیوار پہ نصب گھڑی پہ نطر ڈالی، ابھی تو صرف رات کے ایک بجے تھے۔ ’اف،
میں صرف آدھے گھنٹے سوئ ہوں‘، اس نے سوچا، ’یہ وقت گزرتا کیوں نہیں، ایسا محسوس
ہورہا ہے کہ میں کئ گھنٹوں سے سو رہی ہوں‘ تب اسے اندازہ ہوا وہ کتنی پیاسی ہو رہی
تھی، حلق کانٹے کی مانند خشک ہو رہا تھا۔ وہ اٹھی اور پلنگ کے ساتھ رکھی بوتل کا
ڈھکن کھول کے پانی گلاس میں انڈیلا، اس میں صرف آدھا گلاس پانی ہی بچا تھا۔
وہ واپس کھڑکی کی طرف مڑی اور سِل پہ پیر رکھ دیے، دوسری طرف اترنے ہی والی تھی کہ
اماں کی آواز کانوں میں گونجی ’شبو تمہیں کتنی بار کہا ہے بالکونی میں دروازے سے
جایا کرو، یہ کس کام کا ہے آخر‘ اماں جب اسے کمرے سے ملھقہ بالکونی میں کھڑکی سے
کود کر جاتے ہوۓ دیکھتیں تو یہی نصیحت کرتیں، لیکن اس نے بھی نہ مانی تھی، ہمیشہ
کھڑکی سے ہی گئ تھی۔ اس نے اپنے والدین کی تمام خواہشات پوری کی تھیں، ہر بات مانی
تھی، کیا ہو جاتا اگر یہ بات بھی مان لیتی، اماں خوش ہو جاتیں۔
وہ کھڑکی سے نیچے
اتری، اور ساتھ بنا ہوا دروازہ کھولا، ہینڈل پہ گرد کی ایک تہہ جمی ہوئ تھی،
دروازہ ذرا سی چرمراہٹ کے ساتھ کھل گیا۔ ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے کے ساتھ اس نے
بالکونی میں قدم رکھ دیے۔ فرش ذرا ٹھنڈا تھا، وہ گرل کے نزدیک جا کھڑی ہوئ۔
اِس بالکونی سے اماں کی کتنی یادیں وابستہ تھیں، سردیوں میں جب اماں قلفی دلانے سے
منع کر دیتیں تو اماں کے گلک سے پیسے چرا کے، گرل سے ٹوکری باندھتی، ار قلفی والے
سے قلفی لیتی، کبھی اماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بالکونی میں کھڑے ہو کر موسم
کی پہلی بارش کے مزے لیتی، رات کے وقت اکثر اماں کے ساتھ بالکونی میں بیٹھ کے تارے
گنتی، کتنا مزہ آتا تھا۔ نجانے کیوں اماں کے ہوتے ہوۓ ایک بے فکری سی ہوتی تھی
حالانکہ اماں تو ایک عام سی خاتون تھیں، کچھ خاص نہ تھا لیکن اماں کی آغوش مین وہ
خود کو بہت محفوظ خیال کیا کرتی تھی، شاید مامتا کی حفاظت تھی کہ اسے وہاں بہت
سکون محسوس ہوتا تھا۔
وہ چاند کی طرف
ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی، جب وہ چھوٹی تھی تو اماں اکثر اسے چاند پہ رہنے والی
پریوں کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں، وہ بتاتی کہ وہ کتنی نازک اور خوبصورت ہوتی
ہیں، لیکن دل کی کتنی اچھی اور شفیق ہوتی ہیں۔ اسے لگتا تھا کہ اس کی اماں بھی
انہی پریوں کی بہن ہے۔ اس کا نام نورالعین تھا، لیکن سب نوری کہتے تھے۔ وہ اپنے
نام کی طرح سب کی آنکھوں کا نور تھی۔ صورت میں تو وہ بے حد گوری تھی، گہری بھوری
آنکھیں اور لمبے بھورے بال تھے، لیکن سیرت میں بھی نیک، شفیق اور سادہ تھی۔ کبھی
کبھی خفا ہو جاتی تھی، لیکن پھر اس کے معافی مانگنے پہ مان بھی جاتی تھی۔ رات کے
وقت اٹھ کر اس کے کمرے میں آتی، اگر رات گئے دیر تک جاگ رہی ہوتی تو وجہ پوچھتی،
کوئ پریشانی یا الجھن ہوتی تو دور کرنے کی کوشش کرتی، پانی کی بوتل سرہانے رکھ
دیتی۔ گھر کے کام بہت کم بولتی تھی کیونکہ اس کے خیال میں جب تک بیٹی خود اسے ذمہ
داری سمجھ کر کرے گی، بولنا بلاوجہ زبردستی کرنے کے مترادف تھا۔ کبھی کبھی اپنا
کمرہ سمیٹنے کا کہہ سیتی، لیکن جب سے وہ نویں میں آئ تھی، یہ کام بھی کم کم ہی
بولتی تھی، کہ جانتی تھی اب بیٹی کی پڑھائ ذرا سخت ہے، اکثر اس کا کمرہ خود ہی
سمیٹ دیتی، مال کھلے دیکھتی تو تیل لگا کر چٹیا باندھ دیتی۔
کچھ تھکاوٹ، اور کچھ بیزاری سے اس نے اپنے شانوں پہ بکھری بھوری لٹوں کو سمیٹ کے
پیچھے دھکیلا، اور پھر آسمان میں گم ہو گئ۔ ایک ستارہ تنک رہا تھا، کچھ دیر تک وہ
یونہی ٹمٹماتا رہا، پھر اندھیرے میں کہیں غائب ہو گیا، وہ کافی دیر تک اس سمت میں
نگاہیں جمائے رہی، لیکن وہ ستارہ دوبارہ نہ چمکا۔ اس نے دوسری طرف دیکھا، پور
آسمان ستاروں سے بھرا پڑا تھا۔ کچھ دیر بعد نگاہ واپس اسی کھوئے ہوئے تارے کی طرف
بھٹک گئ، لیکن وہ اس جگہ کو پا نہ سکی، یا شاید اب اس کی جگہ کسی اور تارے نے لے
لی تھی۔
’ہم بھی کتنے ناشکرے ہوتے ہیں، جس وقت جو چیز ہمارے پاس ہوتی ہے اس وقت اس کی قدر
نہیں کرتے، اور جب وہ چیز چھن جاتی ہے، تو پچھتاتے ہیں‘۔
Comments
Post a Comment