My unofficial last day at school
کچھ عرصے کے ناغے کے بعد میں آخرکار لوٹنے میں کامیاب ہو ہی گئ، اب کی بار ایک بالکل نئے طرز کی تحریر کے ساتھ۔ یہ شاید اپنے طرز کی ایک ہی تحریر ہو میری طرف سے البتہ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اب میں نے کچھ ایسا لکھ لیا ہے اور مجھے یہ نہ ظرف اچھا لگا ہے، بلکہ مزہ بھی آیا ہے۔
سب سے پہلے سرورق، یہ میرے ذہن میں چونکہ انگریزی میں آیا تھا سو میں نے اسے ایسے ہی لکھ ڈالا، میں شاید یہ پوری تحریر ہی انگریزی میں لکھ ڈالتی، لیکن پھر الفاظ کی قلت پڑگئ اور پھر یہ کوئی عام تحریر بھی تو نہیں تھی۔ اس تحریرمیں میں نے اپنے احساسات و خیالات کو ایک کہانی کی شکل دی ہے۔
کہانی سے قارئین نے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے، اور کہانی نے ان پہ کیا تاثر چھوڑا ہے، یہ جان کر مصنف کو ہمیشہ خوشی ہوتی ہے میں بھی کسی نہ کسی حد تک اس صف میں شامل ہوں، سو یہ قیمتی تاثرات مجھے بھی خوشی دیتے ہیں۔
فروری ۲۰۲۰ کا پہلا ہفتہ تھا، کراچی کی ہوا میں کچھ خنکی، کچھ تمازت تھی۔ سرمئ یونیفارم پہ سرمئ سوئیٹر زیب تن کیے، ۔کندھوں پہ نیلا بستہ لٹکائے (یا شاید بستہ کالا تھا، یاد نہیں) خیر میں اسکول کی بلڈنگ میں داخل ہوئی تھی۔
معمول کی بات چیت دوستوں سے، پھر اسمبلی، پھر قطار صورت کلاس کی طرف پیش قدمی، سب معمول کی طرح بیزار اور فضول سا لگ رہا تھا (کون جانتا تھا کہ اس سال کا آخری ہے یہ سب)۔
میں کلاس میں پہنچ کے بستہ اپنی بینچ پہ دھر کے روزانہ کی طرح ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی، ساتھ ہی دعائیں بھی کر رھی تھی کہ وہ ایک لڑکی جو میرے ساتھ بینچ پہ بیٹھتی ہے وہ نہ آئی ہو، (مجھے اس کا نام اب بھی یاد ہے، اور یہ بھی کہ وہ بہت، بری لگتی تھی مجھے) خیرِ، اب دیکھوں تو تو اتنی بھی بری نہیں تھی
میری دعا اس دن قبول نہیں ہوئی، وہ لڑکی آگئی۔ کلاسس شروع ہو گئیں، بریک ہو گئی، چھٹی ہو گئ، ہم وین میں بیٹھے، جھٹکے کھاتے، سوتے جاگتے گھر پہنچے۔ گھر پہنچ کے وہی پہلا سوال ’کیا پکا ہے‘، شاید بھنڈی پکی تھی، ہاں بھنڈی ہی تھی جس پہ میرا منہ بن گیا تھا، (معزرت کو ساتھ، لیکن بھنڈی کبھی بھی میری پسند نہیں بن سکی)
اچھا پھر شام میں ہوم ورک کرتے ہوئے گھر کے کسی فرد نے تازہ ترین خبریں دیکھیں، شفقت محمود (سابقہ وفاقی وزیر تعلیم) کی طرف سے تمام تعلیمی اداروں کے لیے ایک ہفتے کی تعطیل کا نوٹس موصول ہوا تھا، دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا کوئی وائرس تھا، جس کے پیش نطر یہ اقدام لیا گیا تھا۔ خبر سن کر ہومورک میں مشغول ہاتھ ذرا سست پڑے، پھر اگلے چند لمحات میں اپنے اسکول کی طرف سے بھی تصدیق کر دی گئی، بس پھر کیا تھا، کتابیں ایک کونے میں دھر دی گئیں کہ ابھی تو ایک ہفتہ ہے (غلط نہ سمجھیے گا، میں پڑھائی سے جی چرانے والی بچی ہرگز نہیں ہوں، بس وقتی طور پہ) ۔
خیر، مختصرا یہ کہ چھٹیوں کا پروگرام ور گیا، پہلے پندرہ دن، پھرایک مہینہ، پھر ’جب تک حالات سازگار نہیں ہو جاتے، تب تک‘ ۔ اور حالات تو کہیں ۲۰۲۱ میں جا کے سازگار ہوئے۔
میری بہت سی دوستوں نے کووڈ کے بعد اسکول جوائن کیا، البتہ میں کنارہ کش ہوگئی، اور ہوم اسکولنگ کو ترجیح دی۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں تو یاد آتی ہے، اچھے دن بیتے تھے وہاں بھی، بس ان درودیوار ان لوگوں کو ٹھیک سے خداحافظ کہنے کا، ایک الوداعی نگاہ ڈالنے کا موقع نہیں ملا، پتہ تو تھا کہ ایک دن یہ سب ختم ہو جائے گا، لیکن اتنی جلدی، اتنی اچانک، بس یہ نہیں پتا تھا، پتا ہوتا تو شاید احساسات کچھ اور ہوتے۔ اب میں یہ نہیں کہہ رہی کہ واپس اسکول جانا ہے، ( اتنا بھی اچھا نہیں تھا) ۔ دوستوں کی بات تھی، لیکن وہ تو ویسے بھی مل گئے (الحمدللہ)، بس کچھ یادیں وابستہ ہیں اس جگہ سے، زندگی نے موقع دیا تو انشااللہ ایک بار ضرور دیدار ہو گا
خیر تو آخر میں مجھے دو دو ایڈونچرز مل گئے۔ لوگ بہت کہتے ہیں کہ اسکول لائف کے الگ مزے ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ تو بھئی نہیں چاہئیں وہ مزے، وہ آپ کو ہی مبارک ہو (: اور آپ کو ایک اور بات بتاؤں،ہوم اسکولنگ کے نا اس سے بھی ڈبل مزے آئے مجھے
تو الحمدللہ، زندگی نے اچھے مواقع فراہم کیے اور ہم نے انھیں خوب استعمال بھی کیا۔ اور جہاں تک بات ہے اسکول اور اس سے جڑے ناسٹیلجیا کی، تو کچھ چیزیں ہماری ذات کا حصہ رہتی ہیں، ان کی یاد ہمیشہ لبوں پہ مسکراہٹ لے آتی ہے
آخر میں بس ایک بات کہ اسکول اگر بہت اچھا نہیں تو بہت برا بھی نہین لگتا تھا، اور کچھ چیزوں کی اہمیت انہیں چھوڑ دینے کے بعد بڑھ جاتی ہے، اور کچھ چیزوں کو اپنی بہتری کی خاطر ترک کرنا پڑتا ہے
بہترین کاوش! اللہ نے تمہیں قلم کی شکل میں بہترین تحفہ دیا ہے! ایسی ہی لکھتے رہو اور ہمیں اپنی خوبصورت تحریر پڑھنے کا موقع دو۔ ویسے اسکول میں ہمارے نہ اچھے تعلقات تھے نہ برے۔ پھر بھی میں دور بیٹھی تمہاری ہسی کو admire کرتی تھی! اللہ تمہیں ہمیشہ ہستا کھیاتا رکھے! آمین۔
ReplyDeleteآپ نے بہت خوبصورتی سے اپنے احساسات اور خیالات کو الفاظ میں پرویا ہے۔ لکھنے کا انداز بہت لطفاندوز ہے ماشاءاللہ اور الفاظ کا چناو بھی بہت خوب ہے۔
ReplyDeleteزندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کا تجربہ ہم آخری دفعہ کر رہے ہوتے ہیں مگر اس وقت ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا۔ بعد میں وہ چیز ایک خوبصورت یاد کے طور پر رہ جاتی ہے۔ آپ کی تحریر پڑھ کر بہت اچھا لگا اور اپنے اسکول کا دور بھی یاد آگیا۔ اس ہی طرح لکھتی رہیے!